Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


مذنہ واپس آ گئی تھیں۔

”ڈنر کے بعد وہ اماں جان کے کمرے میں آ گئی تھیں  طغرل اور فیاض کے علاوہ سب وہاں موجود تھے  اماں جان نے کہا۔

”بہو! بہت دل لگ گیا تمہارا وہاں پر  خیر بہت عرصے بعد سب سے ملی ہو گی۔“ انہوں نے پہل کرتے ہوئے بات کی۔

”اماں جان! ایک طویل عرصے بعد سب سے ملی ہوں  سب نے بہت محبت دی  خیال رکھا اتنے دن گزرنے کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا مجھے۔

”بھابی! آپ کی وجہ سے میں نے عائزہ کی منگنی بھی بے حد سادگی سے کی ہے۔ اب آپ آ گئی ہیں تو بہت دھوم دھام سے منگنی کریں گے۔“ صباحت نے کہا۔

”ہاں… ہاں کیوں نہیں اور جلد ہی فراز بھی پاکستان آنے والے ہیں۔“ انہوں نے قریب بیٹھی عائزہ کو شوخ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا اور عائزہ مسکرا رہی تھی۔
(جاری ہے)

”ہم سب مل کر دھوم دھام سے خوشیاں منائیں گے۔

”ایک زمانہ گزر گیا اس گھر خوشیاں آئے  اب میں چاہتی ہوں مرنے سے قبل اللہ مجھے میرے بچوں کی خوشیاں دیکھنا نصیب کرے  سرخرو ہو کر اس دنیا سے جاؤں۔“

”یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ دادی جان!“ پری کے چہرے کی رنگت بدلی تھی ان کی بات پر۔

”اللہ آپ کا سایہ سدا ہمارے سروں پر رکھے اماں ایسی باتیں نہ کیا کریں۔“

”جو حقیقت ہے اس سے فرار کس طرح ممکن ہے۔

”ایسی خوشی کے موقع پر آپ نے ہمیں دکھی کر دیا ہے دادی جان! آپ سے ہی تو اس گھر کی رونق ہے۔“

”میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ سب خوش رہیں۔“

”آپ کی دعاؤں کے طفیل ہم سب خوش ہیں  آپ آرام کریں اماں جان! میں کچھ ٹائم طغرل کے پاس گزاروں گی۔ بہت یاد کیا ہے میں نے اس کو وہاں پر  مگر فکر نہیں تھی کہ وہ آپ کے پاس ہے مجھ سے زیادہ آپ خیال رکھتی ہیں۔
“ وہ طغرل کے روم میں آئیں تو وہ نائٹ ڈریس پہن کر واش روم سے نکلا تھا۔ انہیں دیکھ کر مسکراتا ہوا بولا۔

”دادو نے بہت یاد کیا تھا آپ کو  وہاں سب لوگ کیسے ہیں ممی! انجوائے کیا آپ نے وہاں۔“ وہ ان کے قریب بیٹھتا ہوا بولا۔

”پندرہ سال بعد ملی ہوں سب سے ہاتھوں ہاتھ لیا  کوئی ایسا دن نہیں گزرا جس میں پارٹی نہ ہو۔“

”ہوں  تب ہی خاصی صحت مند دکھائی دے رہی ہیں۔
“ وہ شوخی سے گویا ہوا تھا۔

”رئیلی بیٹا! میں فیٹی ہو گئی ہوں؟“

”مذنہ کو فوراً ہی اپنے موٹاپے کی فکر ہوئی تھی اور وہ ہنس پڑا۔

”میں مذاق کر رہا تھا ممی! آپ کو اس قدر اپنی اسمارٹنس کی فکر کیوں رہتی ہے  آپ تھوڑی صحت مند بھی کیوٹ لگیں گی۔“ وہ ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

”آپ کے ڈیڈی کو موٹی عورت اچھی نہیں لگتی ہے۔
“ وہ ہنس کر گویا ہوئی تھیں۔ ”وہاں ماموں اور ممانی نے آپ کی کمی کو بہت محسوس کیا  اصرار کر رہی تھیں اگلی دفعہ آپ کو ضرور لے کر آؤں۔“

”ابھی تو میں بے حد بزمی ہوں ممی! فیکٹریز کیلئے کنسٹریکشن ہو رہی ہے اور ایک پرسکون علاقے میں  میں نے ریذیڈنسی چوز کر لی ہے  کچھ چینجنگ کنسٹریکشن وہاں بھی ہوں گی۔ جو عنقریب شروع کرانے والا ہوں۔

”آپ نے مجھے کال بھی کی تھی کہ علیحدہ گھر لینا چاہ رہے ہیں اب ماشاء اللہ لے بھی لیا ہے  کوئی خاص وجہ ہے کیا گھر لینے کی؟“ اس کی طرف دیکھ کر وہ پرتجسس انداز میں گویا ہوئیں۔

”گھر تو لینا تھا نا ممی!“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔

”ہاں گھر تو لینا تھا مگر اتنی جلدی کیوں کی آپ نے؟ یہاں کسی نے برا برتاؤ کیا ہے آپ کے ساتھ؟ ورنہ آپ اماں کے پاس سے جانے والے نہیں تھے۔

وہ ماں تھیں اور ماں سے بڑھ کر بچوں کے احساسات کو کون سمجھ سکتا ہے وہ فوراً ہی اس کا ذہن کھوجنے لگی تھیں۔

”نہیں ممی! کون کرے گا بھلا اس طرح میرے ساتھ برا برتاؤ… میں دادی جان کو ساتھ لے کر جاؤں گا یہاں سے ابھی آپ ان سے ذکر مت کیجئے گا خوامخواہ وہ پریشان ہو جائیں گی۔“

”نہیں ممی! کون کرے گا بھلا اس طرح میرے ساتھ برا برتاؤ… میں دادی جان کو ساتھ لے کر جاؤں گا یہاں سے ابھی آپ ان سے ذکر مت کیجئے گا خوامخواہ وہ پریشان ہو جائیں گی۔“

وہ کیا بتاتا ان کو پری کے ساتھ ہونے والی جھڑپ نے اس کو سنجیدگی سے علیحدہ گھر لینے کی ترغیب دلائی تھی۔

”میں تو خود ابھی ساتھ رہنا چاہتی ہوں ایسی کوئی جلدی نہیں ہے  ہمیں دور جانے کی پھر ابھی صباحت عائزہ کی منگنی کرنا چاہ رہی ہیں  میری وجہ سے بے چاری اپنی ساری خوشیاں دبائے بیٹھی ہیں پھر ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔“

”ممی! آپ پریشان مت ہوں  جب آپ کا حکم ہوگا ہم تب وہاں چلیں گے اور میں نے بتایا نا ابھی وہاں ری کنسٹریکشن ہو گی  اس کو اسٹبلشڈ کرنے میں ٹائم لگے گا۔

###

”مجھے سمجھ نہیں آتی ہے آپ کی مصروفیات دن بدن اتنی بڑھتی جا رہی ہیں کہ مجھے آپ سے بات کرنے کا ٹائم ہی نہیں ملتا ہے۔“

فیاض روم میں داخل ہوئے تو وہ شکایتی لہجے میں گویا ہوئیں  فیاض نے بیڈ پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔

”بات…؟ تم  کو بات کہاں کرنی ہوتی ہے کوئی نئی خواہش پیدا ہوئی ہو گی تمہارے اندر  کوئی نئی فرمائش کرنی ہو گی تمہیں۔
“ وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے بولے۔

”ہاں کیوں نہیں  آپ تو میری ہر خواہش منہ سے نکلتے ہی پوری کر دیتے ہیں گویا  کوئی فرمائش رد نہیں کرتے ہیں جیسے۔“ وہ منہ بنا کر گویا ہوئیں۔

”الحمد للہ! میں یہ پوری کرتا ہوں کسی اور کا نام ہے تو بتا دو میرے علاوہ…“

”آپ کے علاوہ کوئی اور پوری بھی کیوں کرے  باپ ہیں آپ اپنی بیٹیوں کے ان کی تمام تر ذمہ داریاں نبھانے کا آپ کا حق ہے فیاض صاحب!“

”اب کیا کرنا چاہتی ہو تم؟ کس بات کا ہنگامہ ہے یہ؟“

”ارے ہنگامہ آپ کر رہے ہیں یا میں؟ میری ہر سیدھی بات کا آپ الٹا جواب دے رہے ہیں۔

فیاض صاحب کا اکھڑا انداز ان کو اسی طرح لمحے بھر میں آپے سے باہر کر دیا کرتا تھا جس کی وہ کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔

”پلیز! سونے دو مجھے  سارا دن گھر سے باہر وقت گزرتا ہے اور گھر آ کر آرام کے بجائے تمہاری لن ترانیاں سننی پڑتی ہیں۔“

”آپ کا تو ہر دن گھر سے باہر گزرتا ہے اب مجھے کوئی بات کرنی ہو گی تو میں کس سے کروں؟ خرچہ تو آپ ہی اٹھائیں گے نا۔

”خرچہ!“ انہوں نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تھا۔

”یہ اب کون سا ایکسٹرا خرچہ تم نکال کر بیٹھی ہو؟“

”بھابی مری سے آ گئی ہیں اب فاخر کو بھی ہم انگوٹھی پہنانے جائیں گے یا نہیں؟“ ان کے بگڑے تیور صباحت کے مزاج درست کر گئے  ان کی طرف دیکھ کر وہ آہستگی سے گویا ہوئیں۔

”فی الوقت میں کسی بھی جونچلوں کو برداشت کرنے کے موڈ اور پوزیشن میں نہیں ہوں  اپنی ان خواہشات کو ابھی اندر ہی رکھو تو بہتر ہے۔

”آپ تو کبھی بھی میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہی نہیں ہیں  ہر وقت بے زار دکھائی دیتے ہیں ہم ماں بیٹیوں سے۔ میں نے بھابی جان سے کہہ دیا ہے کیا جواب دوں گی ان کو؟“ وہ بری طرح بوکھلا کر رہ گئی تھیں۔

”ہر بات کو کیوں اس طرح سر پر سوار کر لیتی ہو  ضروری تو نہیں ہے جو تم چاہو وہ فوراً ہی ہو جائے  کچھ صبر و برداشت سے بھی کام لینا پڑتا ہے ہمیشہ جلد بازی سے کام لیتی ہو۔


”آپ کی عزت کی بات ہے بھابی کیا سوچیں گی؟“

”بھابی کو میں جانتا ہوں  وہ بہت سمجھ دار عورت ہیں  وہ خیال نہیں کریں گی۔“

”میرے علاوہ آپ کو دنیا کی ہر عورت سمجھ دار دکھائی دیتی ہے  ساری برائیاں تو مجھ میں ہی ہیں۔“

###

جب بدگمانی کی دھوپ میں پل کر

شک کے کانٹے لہو میں چبھتے ہیں

تو محبت کے گلابی موسم

زرد رنگ میں بدلتے ہیں

کڑوی ہو جاتی ہے محبت بھی

اور نصیب بھی جھلستے ہیں

پھر پشیمانی کے گھنے جنگل میں

ہاتھ اپنے پریمی ملتے ہیں

آرزوؤں کے پھول مرجھاتے ہیں

غم کی کلیوں سے بھرسا جاتا ہے

گھر آنگن دل کا گلشن

تہہ چلمن

وین سے اتر کر اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایڈریس ایک بار پھر دیکھا تھا اور مطمئن ہو کر تین تلوار کے عقب میں چل پڑی تھی اور کچھ دور جا کر اس کے سپنے کا جہاں پھیلا ہوا تھا صاف شفاف سیاہ سڑکیں تھیں اور سڑکوں پر رواں دواں خوبصورت گاڑیاں تھیں۔

وسیع و عریض بنگلوز تھے جن کے آگے خوبصورت سرسبز و شاداب لان بنے ہوئے تھے ایک پرسکون خاموشی تھی یہاں اتنے بڑے بڑے بنگلوں سے کوئی آواز ہی نہ ابھر رہی تھی  اسے یاد آنے لگا اپنا محلہ اور محلے سے ملحقہ علاقے جہاں ہر وقت ہی بے ہنگم شور رہتا تھا اور اس کے گھر میں بھی خاموشی نہ تھی۔

”کون ہیں آپ؟ کس سے ملنا ہے آپ کو؟“ وہ سوچوں میں گم کس لمحے ساحر کے بنگلے کے قریب پہنچ گئی تھی  اس کو معلوم ہی نہ ہو سکا تھا  چوکیدار کی کراری آواز پر وہ چونک کر ہوش میں آئی تھی۔

”ساحر صاحب ہیں؟ ان سے ملنا ہے مجھے۔“

”ٹھہرو آپ ادھر ہی  صاحب سے معلوم کرکے آتا ہوں  کیا نام ہے آپ کا؟“

”ماہ رخ!“ وہ اعتماد سے بولی تھی اور چوکیدار گیٹ بند کرکے واپس اندر چلا گیا تھا۔ چوکیدار کی اس حرکت پر اس کو بڑی کوفت ہوئی تھی۔ کچھ دیر بعد گیٹ کھلا تھا اور چوکیدار سے پہلے ساحر کا چہرہ نظر آیا تھا۔

”ہیلو  آئم سوری! تشریف لایئے میں نے واچ مین کو بے حد ڈانٹا ہے کہ وہ آپ کو اس طرح گیٹ سے باہر کیوں چھوڑ کر آیا ہے۔
“ اس نے اندر آتے ہی معذرتی انداز میں کہا تھا اور وہ مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔

”ارے آپ نے کیوں خوامخواہ اس بے چارے کو ڈانٹا ہے یہ تو اس کی ڈیوٹی ہے سکیورٹی کیلئے یہ کرنا پڑتا ہے۔“

”آپ تو ہماری آمزیبل گیسٹ ہیں آپ کی شان میں یہ گستاخی ناقابل برداشت ہے۔“ وہ اسے لے کر اندر آ گیا تھا اور وہاں کی خوبصورتی نے اس کو از حد متاثر کیا تھا۔

”موسم اچھا ہے آپ کہاں بیٹھنا پسند کریں گی  یہاں لان میں یا اندر لیونگ روم میں؟“

”لان میں ہی بیٹھیں گے  اگر آپ کے کسی فیملی ممبر کو اعتراض نہ ہو تو۔“ وہ تکلف زدہ لہجے میں بولی تھی۔

”یہاں میرے علاوہ کوئی فیملی ممبر نہیں ہے۔“ وہ مسکرا کر شائستگی سے گویا ہوا تھا۔

”یہاں آپ تنہا رہتے ہیں  اتنے بڑے گھر میں؟“ اس کو سخت حیرانی ہوئی تھی۔

”رہتا بھی کہاں ہوں؟ آنا جانا لگا رہتا ہے سال میں ایک بار آتا ہوں میں یہاں چند دنوں کیلئے۔“ وہ چیئرز پر بیٹھ چکے تھے۔

”پھر آپ کے جانے کے بعد یہاں کون رہتا ہے  کیا آپ اس کو رینٹ پر دے دیتے ہیں؟“ اس نے مسکرا کر اس کے حیران اور تعجب زدہ چہرے کو دیکھا اور کہا۔

”رینٹ پر نہیں دیتا نوکر حفاظت کرتے ہیں یہاں کی۔“

”پھر فائدہ ہی کیا ہے آپ کو اتنا بڑا گھر رکھنے جب سال میں صرف دو ہفتے یہاں رہنا ہو تو۔
آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ یہ بنگلہ سیل کر دیں اور خود آ کر کسی ہوٹل میں ٹھہر جایا کریں  اس طرح آپ کے لاکھوں روپے بچیں گے۔“

”مشورہ تو آپ کا زبردست ہے لیکن میری عادت ہے مجھے فل لگژیز گھر اچھے لگتے ہیں۔ اس سے زیادہ خوبصورت اور وسیع میرے دوسرے شہروں میں بنگلے ہیں اور ان میں  میں سال میں ایک بار بھی نہیں جاتا ہوں  شارٹ ٹائم کی وجہ سے۔

”یہ عادت نہیں آپ کا کریز ہے  مجھے سمجھ نہیں آ رہی یہ کیسا شوق ہے آپ کا؟“ وہ اس کی باتوں سے سخت متحیر تھی۔

”ہم ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں  میرے ڈیڈ اپنے ڈیڈ کے اکلوتے بیٹے تھے  ساری دولت و جائیداد ان کے حصے میں آئی تھی  اب میں اپنے ڈیڈ کی اکلوتی اولاد ہوں  تو سب میرا ہی ہے اور اس کو میں اپنے طریقے اور شوق سے پوز کرتا ہوں  پھر میرا بزنس بھی سیٹل ہے۔

”آپ کے والدین آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟“

”وہ امریکہ میں سیٹل ہیں پاکستان نہیں آتے۔“

ایک ملازم لیمن اسکوائش کے گلاس سرو کرکے چلا گیا تھا۔ وہ اس کی شاندار رہائش اور باتوں سے بڑی حد تک مرعوب ہو گئی تھی۔ فوری طور پر پوچھنا بھول گئی تھی اعوان کے متعلق پھر یاد آنے پر گویا ہوئی تھی۔

”اعوان نے مجھ سے کہا تھا جب بھی آپ سے کہوں آپ میرا رابطہ اس سے کرا دیں گے  میں آج آپ کے پاس اسی لئے آئی ہوں  آپ میری اس سے بات کرا دیں۔

”شیور… شیور میں ضرور آپ کی اس سے بات کرا دیتا لیکن…!“ وہ کہتے کہتے رک گیا وہ گھبرا کر اس کی طرف دیکھتی ہے۔

”کیا ہوا؟ اعوان خیریت سے تو ہیں نا؟“

”وہ خیریت سے ہے  آپ پریشان مت ہوں  اسکوائش پئیں۔“ وہ اس کو پریشان دیکھ کر دلاسہ دینے والے انداز میں بولا۔

”ایک ماہ ہو چکا ہے اعوان کو گئے ہوئے اور اس کا آپ سے رابطہ بھی نہیں ہے۔
“ آپ تو پریشان ہو گئی ہیں اعوان کو معلوم ہوگا تو میری جان لے لے گا کہ میں نے آپ کو پریشان کیا ہے چلیں آئیں  ہم باہر چلتے ہیں  ڈنر بھی باہر کریں گے۔“

”گلاس ٹیبل پر رکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا رخ اس کی ادھوری بات سے وسوسوں کا شکار ہو گئی تھی۔

”باہر کہاں جائیں گے؟ میں ممی سے کالج کا بہانہ کرکے باہر نکلی ہوں  مجھے ٹائم پر گھر پہنچنا ہوگا  ممی ڈیڈی آج کل میری شادی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔
میں ان سے بہانے بنا بنا کر تنگ آ چکی ہوں  ادھر اعوان سارے وعدے بھلا کر بیٹھ گیا ہے۔“

”ڈونٹ وری! سب ٹھیک ہو جائے گا  شاید وہ مس پلیس ہو گیا ہے  اس لئے اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے جیسے ہی اس نے کال کی میں سب سے پہلے آپ سے ہی رابطہ کروں گا۔“ پھر چونک کر پوچھا۔ ”میں آپ سے کس طرح رابطہ کروں گا میرے پاس آپ کا کوئی کانیکٹ نمبر نہیں ہے نا ہی ایڈریس ہے۔“

اگلے ہفتہ میں آپ سے خود معلوم کروں گی۔“

   2
0 Comments